مثبت سوچ اور افکار و خیالات ہی انسان کی کامیابی کا زینہ ہوتے ہیں، مثبت سوچ اپنائیں اور منفی سوچ سے چھٹکارا حاصل کریں۔ مثبت سوچ ناممکن کو ممکن بنا سکتی ہے۔ علامہ نیاز فتح پوری میٹرک پڑھے تھے مگر وہ ”علامہ“ کہلاتے تھے انہیں دنیا کی بہت سی زبانیں آتی تھیں
ماہرین نفسیات اس بات کو تسلیم کرچکے ہیں کہ فرد کی شخصیت کو ابھارنے اور سنوارنے میں مثبت سوچ اہم کردار ادا کرتی ہے اور یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ سوچ دو طرح کی ہوتی ہے‘ مثبت سوچ اور منفی سوچ۔اول الذکر سوچ تو مثبت ہے ہی لیکن اس کی ضد موخرالذکر سوچ جو کہ نام سے ہی منفی ہے یہ اکثر و بیشتر انسان کیلئے منفی ہی ثابت ہوتی ہے منفی سوچ آدمی کی شخصیت کو مسخ کرکے رکھ دیتی ہے اور اس کے منفی پن سے نجات حاصل کرنا کافی دشوار اور کٹھن معاملہ ہوتا ہے تاہم کوشش کرنے سے منفی سوچ میں کمی پیدا کی جا سکتی ہے اور اس کی جگہ مثبت سوچ کو جگہ دی جا سکتی ہے مگر اس کیلئے سخت محنت درکار ہوتی ہے۔
کچھ ایسے طریقے ہیں جن کی مدد سے یہ دشوار کام قدرے آسان ہو سکتا ہے۔ بس آپ کو یہ بات دھیان میں رکھنا ہو گی کہ یہ باتیں صرف پڑھنے کیلئے ہی نہیں ہیں بلکہ پہلے آپ انہیں ذہنی طور پر تسلیم کریں پھر ان پر عمل بھی کریں۔ آپ دیکھیں گے کہ مرحلہ وار تبدیلیوں کا عمل شروع ہو جائے گا اور مثبت سوچ پیدا ہونا شروع ہو جائے گی اس کے ساتھ آپ کے اردگرد کی دنیا بھی بدلنے لگے گی۔
یاد ررکھئے! آپ نے اپنی سوچ بدلنے کا فن سیکھ لیا تو آپ نے گویا دنیا بدلنے کا فن سیکھ لیا۔ اب یہاں سوچ بدلنے میں کارفرما عوامل ترتیب وار پیش کیے جارہے ہیں۔
اندیشے
منفی سوچ میں اندیشے سرفہرست ہوتے ہیں۔ اندیشے ہماری خود اعتمادی کو کھوکھلا کر دیتے ہیں یہ بے شمار ہوتے ہیں مگر انہیں اگر محدود کرکے دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ بعض اوقات یہ مندرجہ ذیل وجوہات کی بنیاد پر پیدا ہوتے ہیں۔
میری عمر بیت چکی ہے
اکثر لوگ اچھے کاموں کی طرف سے اس لیے منہ موڑ لیتے ہیں کہ ان کے خیال میں ان کی عمر موزوں نہیں رہی یعنی جیسے اب بڑھاپے میں کیا تعلیم حاصل کرنا‘ یہ ایک منفی سوچ ہے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد پاک ہے کہ علم حاصل کرو”مھد سے لحد تک“ ماہرین نفسیات بھی مانتے ہیں کہ سیکھنے اور سمجھنے کا عمل مرتے دم تک جاری رہتا ہے۔ ذہن نشین رکھیں کہ بسا اوقات بہت سی صلاحیتوں کا ظہور کافی عمر گزر جانے کے بعد ہوتا ہے۔
معذوری
جسمانی معذوری بھی ایک بڑے اندیشے کے طور پر دیکھنے میں آتی ہے۔ یعنی معذور افراد میں منفی سوچ زیادہ پائی جاتی ہے اور اگر دوسرے لفظوں میں کہا جائے تو منفی سوچ بذات خود ایک بڑی معذوری ہوتی ہے مگر ایک لمحے کیلئے سوچئے کہ آپ نے کئی معذور افراد ایسے بھی دیکھے ہوں گے جو اچھے عہدوں پر فائز ہوتے ہیں اور سماجی و دیگر کاموں میں بھی یہ افراد بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔
سرمایہ اور توانائی کی کمی
بہت سے کام بہت سے لوگ صرف اس منفی سوچ کی وجہ سے نہیں کر پاتے کہ ہمارے پاس اس کام کیلئے سرمایہ اور وسائل نہیں یا ہمارے پاس ویسی توانائی نہیں جو اس کام کی تکمیل کیلئے ضروری ہے ایسی منفی سوچ احساس محرومی کو بڑھاتی ہے اور ہم موجود وسائل کو بھی اپنے کام کیلئے بروئے کارنہیں لاپاتے لہٰذا اس سوچ کو بھی بدلنا ازحد ضروری ہے۔
طبقاتی احساس اور رنگ و روپ
بے شمار لوگ کسی کام کو کرنے سے صرف اس لیے خائف رہتے ہیں کہ وہ اس طبقے سے تعلق نہیں رکھتے لہٰذا یہ کام تو فلاں طبقے کیلئے مخصوص ہے ہم اس طبقے میں کیسے اپنی پہچان بنا سکیں گے؟ جبکہ معمولی رنگ و روپ بھی انسان کو بعض اوقات اپنی شخصیت کے متعلق منفی سوچ پیدا کرنے میں اہم جزو بنتا ہے لیکن اگر تاریخی شخصیات کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہ تمام شخصیات معمولی شکل و صورت کی تھیں مگر انہوں نے اپنے راستے کی رکاوٹ کو اپنی مثبت سوچ کی وجہ سے عبور کیا مثلاً نپولین بہت پست قد و قامت کا شخص تھا۔
تعلیمی کمتری
اکثر لوگ تعلیم کی کمی کی وجہ سے بھی منفی سوچ کی زد میں رہتے ہیں۔ یاد رکھنا چاہیے کہ تعلیم صرف وہ ہی نہیں جو سند وغیرہ کی محتاج ہے بلکہ تعلیم ذہنی نشوونما کا نام ہے۔ کم تعلیم یافتہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ آپ سند کے بغیر بھی چیزیں سیکھ سکتے ہیں مثلاً علامہ نیاز فتح پوری صرف میٹرک تک پڑھے ہوئے تھے مگر وہ ”علامہ“ کہلاتے تھے انہیں دنیا کی بہت سے زبانیں آتی تھیں۔ سعادت حسن منٹو کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ وہ تعلیمی طور پر کوئی سند یافتہ نہیں تھے مگر وہ دنیا کے بااثر ادیب بنے۔ اوپر ذکر کردہ منفی سوچوں کی باتیں آپ نے پڑھیں۔ اب ان کو بدلنے کیلئے مثبت سوچ کیسے اپنائی جائے اس کیلئے کم از کم مندرجہ ذیل اقدامات ناگزیر ہیں۔
ہر صبح پرُ امید ہو کر نکلیں
اللہ پر توکل کریں لیکن اپنی بہترین کوششوں کو ضرور بروئے کار لائیں‘ مایوسی گناہ ہے اس لیے ہمیشہ پرامید رہیں۔ خود کو ہر قسم کے حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار رکھیں۔ مثبت خیالات کیلئے ذہن کو پاکیزہ ہشاش بشاش رکھیں‘ تعمیری باتیںسنیں اور ان پر عمل کریں۔
اپنا جائزہ لیتے رہیں
جسمانی صحت ہماری سوچوں پر اثر انداز ہوتی ہے اس لیے بیماری ہو تو فوراً علاج کی طرف توجہ دیں اور اپنے جسم کے ساتھ ساتھ اپنے ذہن میں پیدا ہونے والے خیالات کا جائزہ لیتے رہیں۔
صبح کو ہلکی ورزش کریں
اس سے جسمانی اور ذہنی دونوں طور پر انسان چاق و چوبند رہتا ہے۔
جذباتیت سے پرہیز کریں
جذباتی گفتگو سے پرہیز کریں اور ٹھنڈے مزاج کے ساتھ دوسرے سے پیش آئیں کیونکہ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ کامیاب ہونے کیلئے ضروری ہے کہ آپ کسی بھی بات کا برا نہ منائیں۔
ناممکنات کی دنیا سے باہر نکلیں
کبھی بھی کسی کام کو ناممکن نہ سمجھیں ہمیشہ مثبت سوچ رکھیں کہ کام مشکل تو ہے مگر کوشش کرنے میں کیا حرج ہے آخر بہت سے لوگ کامیاب ہوتے ہیں میں بھی کامیاب ہو سکتا ہوں۔
نئے لوگوں سے ملیں
اگر کسی محفل میں شریک ہوں تو چھپ کر اور کنارے لگ کر مت بیٹھے رہیں بلکہ لوگوں کے ساتھ ملیں جلیں‘ ان کیساتھ گفتگو کریں اور ہمیشہ نئے لوگوں سے مل کر ان کو دوست بنائیں ان سے رابطے کیلئے نام پتہ وغیرہ معلوم کریں۔
آخری بات
یاد رکھیں کہ مثبت سوچ اور افکار و خیالات ہی انسان کی کامیابی کا زینہ ہوتے ہیں‘ اس لیے مثبت سوچ اپنائیں اور منفی سوچ سے چھٹکارا حاصل کریں کیونکہ مثبت سوچ ناممکن کو ممکن بنا سکتی ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں